ملتان کا گم شدہ باب ’’ نند لال گویا‘‘
ملتان کی صدیوں پر پھیلی ہوئی تاریخ میں زمانوں کی کتنی تہیں پوشیدہ ہیں آج تک ان کا احاطہ نہیں ہو سکا‘ گاہے گاہے اس اسرار سے پردہ ہٹتا ہے اور ملتان اپنی عظمت کے نئے حوالے کے ساتھ سامنے آتا ہے انسانی تہذیب کے اس قدیم ترین مرکز کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ دنیا بھر کی تاریخ ملتان کی تاریخ سے جڑی ہے اور ملتان کی قدامت مسلمہ ہے‘ تاریخ کے مختلف ادوار میں یہاں مختلف مذاہب کی رنگا رنگی رہی، ملتان ہندومت کا مقدس ترین شہر ہے۔
اشوک اعظم کے دور میں خطہ ملتان بدھ مت کی تعلیمات کا بہت بڑا مرکز تھا، برصغیر میں اشاعت اسلام کے بعد ملتان اپنی شناخت کے ایک نئے دور میں داخل ہوا اور شہر اولیاء کہلایا، اسی طرح سکھوں کے مذہبی پیشوا گرونانک کی ملتان آمد یہاں کے صوفیاء سے ملاقاتیں اور حضرت شاہ شمس سبزواریؒ کے مزار پر ان کی چلا کشی بھی تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہے۔ ان صفحات میں ہم اس عظیم سکھ شخصیت کا تذکرہ کر رہے ہیں جن کی شہرت کے بہت سے حوالے ہیں۔
یہ شخصیت ہیں آغا نند لال گویا … برصغیر کے اہم ترین فارسی شعراء میں سے ایک مغل دور حکومت کے عہدیدار۔ آغا نند لال گویا ملتان کی ایک ایسی گم گشتہ شخصیت ہیں کہ ان کا تذکرہ تفصیلی طور پر نہ تو ملتان کی سیاسی تاریخ میں آسکا نہ ہی ملتان کی ادبی تاریخ ان کے کردار سے آگاہ ہے ۔ آغا نند لال گویا شخصیات میں شامل ہیں۔ سکھ مذہب سے ان کی اس گہری وابستگی کے باعث ان کے حالات زندگی بھی سکھ سکالرز نے ہی مرتب کیے۔
آغا نند لال گویاؔ کے والد کا نام چھجو رام تھا ، جو کھتری قوم سے تعلق رکھتے تھے اور مذہباً وشنو بیراگیہ فرقہ کے پیرو کار تھے۔ چھجو رام کہاں کے رہنے والے تھے اس بارے میں تاریخ وثوق سے کچھ نہیں کہتی لیکن بعض تاریخ دانوں کے نزدیک چھجو رام ملتان ہی کے رہنے والے تھے اور ایک اندازے کے مطابق وہ 1580ء میں ملتان میں پیدا ہوئے۔
چھجو رام جو عربی ، فارسی کے سکالر تھے، شاہ جہان کے دور حکومت میں دہلی پہنچے اور منشی کے عہدہ پر فائز ہوئے، اسی دور میں چھجو رام کی مغل شہزادے دارا شکوہ سے بھی ملاقات ہوئی اور وہ چھجو رام کی عربی ، فارسی اور سنسکرت میں مہارت سے بہت متاثر ہوا۔ جب شاہ جہان نے دارا شکوہ کو قندھار اور غزنی کی مہم پر بھیجا تو دارا شکوہ انہیں بھی اپنے ساتھ لے گیا۔ دارا شکوہ افغانستان میں کچھ عرصہ قیام کے بعد دلی واپس آگیا لیکن چھجو رام نے غزنی میں ہی رہنے کا فیصلہ کر لیا اور غزنی کے گورنر معین الدین کے میر منشی (دیوان ) کے طور پر کام کرنے لگے۔
چھجو رام 50 سال کی عمر تک بے اولاد تھے، ان کے ہاں جو بھی اولاد ہوتی‘ دو تین سال کی عمر میں وفات پا جاتی ، آخر منتوں مرادوں کے بعد 1633ء میں ان کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہوا جس کا نام نند لال رکھا گیا ۔ جب نند لال کی عمر 6 سال ہوئی تو انہیں فارسی پڑھانے کے لئے ایک مولوی کی خدمات حاصل کی گئیں، بعد ازاں نند لال کو ایک مدرسہ میں داخل کرایا گیا جہاں انہوں نے عربی ، فارسی کی اعلیٰ تعلیم کے ساتھ ساتھ اسلامی فقہ اور تصوف کی اہم ترین کتابوں کا بھی مطالعہ کیا۔ نند لال بہت زیادہ ذہین اور ہوشیار تھے، دیوان چھجو رام گوسین راما نند کے پیروکار تھے جو بیراگی فرقہ کا بانی تھا۔
جب نند لال کی عمر 12 سال ہوئی تو اس کے باپ نے ’’ کنتھی ‘‘ کی تقریب منعقد کی ۔ ( کنتھی سے مراد لکڑی کی مالا گلے میں پہننا ) جب گرو گوسین نند لال گویاؔ کے گلے میں مالا ڈالنے لگے تو انھوں نے مالا پہننے سے انکار کر دیا ، والد نے اس انکارکی وجہ پوچھی تو نند لال نے بڑے احترام سے جواب دیا ’’ یہ لکڑی کی ما لا میرے کسی کام کی نہیں اس کے دانے لکڑی کے ہیں اور ایک سوتی دھاگے میں پروئے گئے ہیں جو کسی بھی وقت ٹوٹ سکتا ہے۔ یہ سن کر گوسین راما نند نے دیوان چھجوم رام سے کہا ’’دیوان جی ! میرے خیال میں اسے آزاد چھوڑ دو، یہ اپنے لئے راستہ خود تلاش کر لے گا۔‘‘
نند لال نے غزنی میں رہتے ہوئے نہ صرف عربی ، فارسی میں مہارت کے حوالہ سے شہرت پائی ، بلکہ چھوٹی عمر سے ہی شاعری بھی شروع کر دی تھی۔ نند لال نے ’’ گویاؔ ‘‘ تخلص کیا اور فارسی ادب کی روایت کا بھی باریک بینی سے مطالعہ کیا، غزنی میں ابھی نند لال گویاؔ کی شاعری کی شہرت پھیل ہی رہی تھی کہ ان کے والد کا انتقال ہوگیا، دو سال بعد والدہ بھی دنیا سے چلی گئیں تو نند لال گویاؔ غزنی میں تنہا رہ گئے ۔ انہوں نے غزنی کے گورنر سے درخواست کی کہ اسے اپنے والد کی ملازمت پر فائز کر دیا جائے جس پر گورنر نے کہا تمہارے والد ایک تجربہ کار دیوان تھے ، تم ابھی نوجوان ہو، فی الحال تم چھوٹی ملازمت اختیار کرکے تجربہ حاصل کرو ، وقت گزرنے کے ساتھ تم اپنے والد کی جگہ پر آجائو گے۔
انھوں نے معمولی سطح کی ملازمت سے انکار کر دیا۔ دیوان چھجو رام غزنی میں بہت ساری جائیداد چھوڑ گئے تھے اور مختلف لوگوں کو انہوں نے بہت بڑی رقم قرض بھی دے رکھی تھی ۔ نند لال نے ساری جائیداد فروخت کردی اور باپ کا قرض بھی وصول کر لیا اور ایک تجارتی قافلے کے ساتھ ملتان پہنچ گئے۔ ملتان میں نند لال گویاؔ بیرون دہلی گیٹ ایک نشیبی علاقے میں آباد ہوئے۔ جب ان کی علمیت اور دانشمندی کی شہرت ارد گرد پھیلی تو وہ ملتان کے گورنر کی ملازمت میں آگئے۔
آغا نند لال گویاؔ کی ملتان میں گورنر کے دربار سے وابستگی ان کی تحریروں اور خطوط سے بھی ثابت ہے لیکن ملتان کی تاریخ ان کے اس کردار کے حوالے سے خاموش ہے۔ تاریخ کے مطابق آغا نند لال گویاؔ بطور منشی ملتان کے گورنر کی ملازمت میں آئے، جلد ہی انہیں میر منشی بنایا گیا، نند لال گویاؔ بکھر (سندھ) کے قلعہ کے قلعہ دار بھی رہے۔
کتاب ’’ دستور الانشاء‘‘ کے مطابق آغا نند لال گویاؔ نے ملتان میں رہتے ہوئے مختلف عہدوں پر کام کیا اور بہت سی فوجی مہمات میں بھی حصہ لیا، انہوں نے 30 سال ملتان میں ملازمت کی۔ 1682 ء میں ملازمت ترک کرنے کے بعد نند لال گویاؔ سنجیدگی سے سکھ مت کا مطالعہ کرنے لگے، ان دنوں سکھوں کے دسویں گرو، گرو گوبند سنگھ کا زمانہ تھا اور شمالی ہندوستان میں ان کے دربار کی بہت شہرت تھی۔ سو نند لال گویاؔ نے بھی گرو گوبند سنگھ سے ملنے کا ارادہ کیا۔
ایک سکھ تاریخ دان گرو کین ساکھن کے مطابق آغا نند لال گویاؔ 1682ء میں بیساکھی کے موقع پر پہلی بار آنند پور آئے۔ ( یاد رہے آنند پور کا نام پہلے چک نانکی اور اس سے بھی پہلے مکھو وال تھا) گرو گوبند اپنی روحانی و انتظامی صلاحیتوں کی وجہ سے بڑی شہرت رکھتے تھے ، آنند پور میں ان کے زیر کمان بہت سے سکھ جمع تھے۔ یہی وہ دور تھا جب مغلوں اور سکھوں کے درمیان زبردست محاذ آرائی جاری تھی ، اورنگزیب عالم گیر نے بادشاہ بنتے ہی ہندوستان کے طول و عرض میں موسیقی ، مصوری اور آرٹ کی دیگر سرگرمیوں پر پابندی عائد کر دی تھی۔
یوں ہندوستان کے مختلف علاقوں کے شاعر ، دانشور ، موسیقار اور مصور گرو گوبند سنگھ کے ہاں پناہ گزین ہوگئے۔ مختلف شاعروں اور دانشوروں کے جمع ہونے سے گرو کے دربار میں ایک مضبوط علمی و ادبی روایت کا آغاز ہوا۔ سکھوں کی تاریخی کتب کے مطابق گرو گوبند سنگھ کے دربار میں مذہب ، تاریخ ، فلسفہ ، تصوف، لسانیات ، سیاست ، اساطیر ، منطق ، شاعری ، نثر ، قوم سازی ، حکومت سازی اور اخلاقیات کے باب میں تحقیق و تنقید کے شعبے قائم تھے۔
جہاں ایک خاص علمی ماحول میں تخلیقی و تحقیقی کام ہوا کرتا تھا۔ اسی دور میں ہندی ، سنسکرت اور فارسی کی بہت سی اہم کتابوں کو گور مکھی میں ترجمہ کیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ گرو گوبند سنگھ کے دربار میں 52 شاعر تھے جنہیں سکھ تاریخ میں ’’ گرو گوبند دے باونجاکوی ‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔ اہم ترین بات یہ ہے کہ آغا نند لال گویاؔ گرو گوبند سنگھ کے دربار کے نمایاں ترین شاعر بلکہ ملک الشعراء تھے۔ جب انہوں نے گرو گوبند سنگھ کو اپنی پہلی کتاب ’’ بندگی نامہ ‘‘ کا مسودہ پیش کیا تو گرو گوبند ان کی شاعرانہ صلاحیتوں اور تخیل کی بلند پروازی سے بہت متاثر ہوئے اور انہوں نے نند لال گویاؔ کو مشورہ دیا کہ وہ اپنی کتاب کا نام ’’ بندگی نامہ ‘‘ کے بجائے ’’ زندگی نامہ ‘‘ رکھیں۔
گرو گوبند سنگھ کے ساتھ کچھ وقت گزار کر آغا نند لال گویاؔ آگرہ چلے گئے جہاں ان دنوں اورنگزیب کا بیٹا شہزادہ معظم گورنر تھا۔ شہزادہ معظم نے بڑے احترام سے انہیں ملازمت کی پیشکش اور یوں وہ آگرہ کے میر منشی بن گئے۔ آگرہ میں رہتے ہوئے نند لال گویاؔ نے بڑی جانفشانی اور ایمانداری سے اپنے فرائض انجام دیئے۔ اسی دور میں مغل حکومت کی افغانستان کے ساتھ اکثر محاذ آرائی کی صورت پیدا ہو جاتی تھی کیونکہ مغل بابر کے دور سے ہی افغانستان کو زیر نگیں کرنا چاہتے تھے ۔
اس سلسلہ میں اکثر فوجی مہم برپا کی جاتی تھی۔ جب بھی مغلوں کو افغانستان کے ساتھ تنازعات کی صورت پیدا ہوتی تو نند لال گویاؔ کو ایک طرح سے وزیر خارجہ کا عہدہ دے کر سفارت کاری کے لئے بھیجا جاتا تھا ، دیگر مشرقی ممالک سے بھی خط و کتابت کے لئے آغا نند لال گویاؔ کی خدمات حاصل کی جاتی تھیں۔ اسی دور میں شہنشاہ اورنگزیب ایک فوجی مہم کے سلسلہ میں آگرہ آیا ، اس موقع پر ایک شاہی دربار منعقد کیا گیا۔ ارشد ملتانی اپنے مضمون آغا نندلال گویا ملتانی میں رقمطراز ہیں۔ ’’ایک موقع پر دربار میں قرآن مجید کی ایک خاص آیت کے معنی پر بحث چھڑ گئی دربار میں موجود تمام علماء نے اس آیت کی تشریح و توضیح میں حصہ لیا لیکن بادشاہ کی تشفی نہ ہوئی۔
آغا نند لال گویاؔ بھی اس وقت دربار میں موجود تھے انہوں نے اجازت لے کر آیت مذکور کی شرح متعدد احادیث اور تفاسیر کے حوالے سے جامع انداز میں کر دی اور تاریخی حوالوں سے بتایا کہ اسلامی فرقوں کے کون کون سے عقائد اس آیت کی کیا کیا تاویلات کرتے ہیں‘‘۔ نند لال گویاؔ کے علمی استدلال نے دربار میں دھاک بٹھا دی۔ شہنشاہ اورنگزیب انؔ کی علمیت سے بہت متاثر ہوا، اس نے انہیں 500 روپے انعام اور خلعت عطا کرنے کا اعلان کیا لیکن جب شہنشاہ کے علم میں یہ بات آئی کہ نند لال گویاؔ غیر مسلم ہے تو اسے بہت ناگوار گزرا ۔ سو اورنگزیب نے اپنے درباری علماء کے ذمہ یہ کام لگایا کہ نند لال گویاؔ کو مسلمان کیا جائے۔
سکھوں کی تاریخی کتب کے مطابق آغا نند لال گویاؔ مسلمان ہونے سے انکار کرتے رہے تو بادشاہ کے تیور بدل گئے، ایک وقت ایسا بھی آیا کہ نند لال کو محسوس ہوا کہ اسے قتل کر دیا جائے گاتو ایک رات آگرہ سے لاہور کے لئے خاموشی سے روانہ ہوگئے، چند دن بعد گرو گوبند سنگھ کے ہاں آنند پور پہنچ گئے۔ اس موقع پر گرو گوبند سنگھ نے آغا نند لال گویاؔ کو آنند پور میں ہی رہنے کا کہا جس پر انہوں نے آنند پور میں رہتے ہوئے گرو کی خدمت شروع کردی۔
گرو گوبند سنگھ کی وفات کے بعد 1708ء میں آغا نند لال گویاؔ ملتان آگئے۔ یہاں آنے کے بعد انہوں نے آغا پورہ میں واقع اپنے گھر کے ساتھ ہی ایک سکول قائم کیا جس کے تین شعبے تھے۔
اس سکول میں عربی اور فارسی کی لسانی تعلیم کے ساتھ ساتھ سکھ مذہب کی تعلیم بھی دی جاتی تھی، یہ سکول دراصل گرو گوبند سنگھ کے حکم پر کھولا گیا تھا ، یہ گرو کی ہی خواہش تھی کہ اس علاقے کے سکھوں کو گرو کی تعلیم دی جائے، یہاں تعلیمی مسائل کے ساتھ ساتھ طلبا کے روحانی مسائل بھی زیر بحث آتے تھے، آغا نند لال گویاؔ طلبا کی رہنمائی کرتے تھے ۔ اس سکول میں ہر مذہب کے طلبا کو داخلے کی اجازت تھی ، آغا نند لال گویاؔ 1713ء میں اپنی وفات تک یہ سکول چلاتے رہے۔ ان کی وفات کے بعد ان کے خاندان کے لوگ بھی یہ سکول چلاتے رہے، 1849ء میں جب ملتان انگریزوں کے زیر نگیں آیا تب یہ سکول بند ہوا۔
1713ء میں آغا نند لال گویا کی وفات کے بعد ایک طویل عرصہ تک ان پر کسی بھی سطح کا کوئی کام نہ ہو سکا۔ گو 1914ء میں بھائی ویر سنگھ کے پنجابی ترجمہ کے بعد سے اب تک ان پر سکھ سکالرز نے بہت سا کام کیا ہے لیکن بھائی ویر سنگھ کے پنجابی ترجمہ سے بھی پہلے آغا نند لال گویا پر ملتان میں ہی کام کا آغاز ہوا اور یہ کام کرنیوالے بھی ان کے خاندان کے ہی لوگ تھے۔ سب سے پہلے ان کے خاندانی عزیز بھائی میگھ راج جو فارسی‘ اردو اور ملتانی زبان کے شاعر تھے‘ نے ان کی فارسی شاعری کا ملتانی زبان میں ’’پریم پھلواری‘‘ کے نام سے ترجمہ کیا تھا۔
یہ کتاب گر مکھی میں 1910ء کے قریب شائع ہوئی اور اب نایاب ہے۔ بعدازاں بھائی میگھ راج کے صاحبزادے بھائی رام دیال نے 1920ء میں انگریزی میں 25 صفحات پر مشتمل ایک کتابچہ “Life and Works of Nand lal goya” کے نام سے تحریر کیا تھا‘ بھائی رام دیال کا تحریر کردہ یہ کتابچہ ہی نند لال گویا کی سوانح حیات کا بنیادی ماخذ ہے۔ 1947ء میں آغا نند لال گویا کا خاندان ملتان سے پانی پت ہجرت کر گیا تو ملتان شہر کی ادبی و سیاسی تاریخ سے بھی اس خاندان کا ذکر ناپید ہو گیا۔ پھر ایک طویل عرصہ بعد 1973ء میں چھپنے والی مولانا نور احمد فریدی کی کتاب ’’تاریخ ملتان‘‘ کی دوسری جلد میں صفحہ نمبر 486 پر آغا نند لال گویا کے بارے میں چند سطریں ملتی ہیں لیکن اس کتاب میں ایسا کوئی حوالہ موجود نہیں کہ مولانا نور احمد فریدی کو یہ معلومات کہاں سے حاصل ہوئیں۔
اس کے بعد ملتان کے ایک شاعر سید اقبال گیلانی جو فارسی اور گر مکھی بھی بہت اچھی جانتے تھے کسی کام کے سلسلہ میں ملتان سے کراچی گئے تو انہیں وہاں بوتل گلی کے کباڑ بازار سے نند لال گویا کا ’’دیوان گویا‘‘ گر مکھی رسم الخط میں چھپا ہوا ملا جس کی انہوں نے دو آنے قیمت ادا کی اور اپنے ساتھ ملتان لے آئے۔ اس مجموعہ میں ان کی غزلوں کے علاوہ رباعیات اور ابیات بھی شامل تھے اور نند لال گویا کے مختصر حالات زندگی بھی مرقوم تھے۔ سو سید اقبال گیلانی نے ’’گویا ملتانی…… ایک گمنام شاعر‘‘ کے عنوان سے ایک مضمون تحریر کیا جو 24 نومبر 1978ء کو شائع ہوا۔
آغا نند لال گویا کی زندگی کو دیکھا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ انہوں نے شعر و ادب سے تو زندگی بھر رشتہ قائم رکھا لیکن اپنے عہد کی ادبی تہذیب و تاریخ کا حصہ نہ بن سکے۔ یہی وجہ ہے کہ فارسی اور اردو میں جتنے بھی تذکرے لکھے گئے ان میں نند لال گویا کا ذکر کہیں بھی نہیں ملتا حتیٰ کہ ان کا نام ان فارسی تذکروں میں بھی نہیں ملتا جن میں سے بیشتر مغل دربار سے وابستہ فارسی شعراء نے مرتب کئے۔
نند لال گویا پر تحقیقی کام کرتے ہوئے راقم نے ایک صد سے زائد تذکروں کا مطالعہ کیا جو بے سود ہی ثابت ہونے جا رہا تھا کہ ایک اردو اور ایک پنجابی تذکرے میں ہم نے آغا نند لال گویا کو ڈھونڈ نکالا‘ ان میں سے پہلا تذکرہ فصیح الدین بلخی کا ’’تذکرہ ہند و شعرائے بہار‘‘ ہے جو 1961ء میں بہار سے ہی شائع ہوا۔ آغا نند لال گویا کے اس تذکرہ میں شامل ہونے کی وجہ بھی یہی ہے کہ وہ گروگوبند سنگھ کے ساتھ عظیم آباد کے علاقے میں مقیم رہے۔
فصیح الدین بلخی نے فارسی ہندو شعراء بہار کا ذکر کرتے ہوئے سب سے پہلے آغا نند لال گویا کا ہی تذکرہ کیا ہے۔ ’’فصیح الدین بلخی نے اپنے تذکرہ میں لکھا ہے ’’میری نظر سے ہندو فارسی شعراء میں ان سے بہتر کوئی بھی شاعر نہیں گزرا‘‘۔ فصیح الدین بلخی کے اس تذکرہ سے ہی یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ جرمن محقق اشپرنگر نے اپنی کیٹلاگ میں نند لال گویا کا مختصر تذکرہ کیا ہے۔ دوسرا تذکرہ جو ہماری نظر سے گزرا وہ مولا بخش کشتہ کا ’’پنجابی شاعراں دا تذکرہ‘‘ ہے‘ اس تذکرہ میں سکھوں کے دسویں گرو گوبند سنگھ کا احوال لکھتے ہوئے مولا بخش کشتہ نے ضمناً نند لال گویا کا بھی ذکر کیا ہے اور ان کا ایک پنجابی قطعہ بھی درج کیا ہے۔
آغا نند لال گویاؔ کی جب ملتان کے ایک سکھ خاندان میں شادی ہوئی تو انہیں سکھ مت کے تفصیلی مطالعہ کا موقع ملا اور وہ رفتہ رفتہ اس مذہب کی طرف راغب ہونے لگے۔ نند لال گویاؔ کی اہلیہ روزانہ گروبانی پڑھا کرتی تھی ، نند لال بھی یہ گرو بانی سنتے اور انہوں نے اس کا کچھ حصہ یاد بھی کیا جسے وہ گایا کرتے تھے ۔ ان کی اہلیہ گور مکھی لکھنا اور پڑھنا جانتی تھی ، سو نند لال گویاؔ نے بھی ان سے گور مکھی لکھنا اور پڑھنا سیکھا اور پھر خود بھی گروبانی پڑھنا شروع کر دی۔ نند لال گویاؔ کا سسرالی خاندان آغا پورہ کے نزدیک ہی واقع ’’ گرودوارہ باوا کاہن پت‘‘ میں روزانہ عبادت کے لئے جاتا تھا، رفتہ رفتہ نند لال گویاؔ بھی یہاں عبادت کے لئے جانے لگے۔ اس کے بعد آغا نند لال گویاؔ کو ان کی اہلیہ نے مشورہ دیا کہ وہ گرو گوبند سنگھ سے ملاقات کریں۔ گرو گوبند سنگھ اس وقت آنند پور میں اپنا دربار آراستہ کئے ہوئے تھے۔
سو 1682ء میں آغا نند لال گویاؔ پہلی مرتبہ آنند پور گئے، یوں گرو گوبند سنگھ سے ملاقات کے بعد نند لال گویاؔ باقاعدہ سکھ مت کا حصہ بن گئے اور ؔ قریباً 30 سال گرو گوبند سنگھ کے ساتھ رہے ۔ گرو گوبند سنگھ جو نند لال گویاؔ سے عمر میں 23 سال چھوٹے تھے ان کی بہت عزت کرتے اور انہیں اپنے دربار کا قیمتی رتن کہا کرتے تھے۔ نند لال گویاؔ بھی گرو گوبند سنگھ کے اس حلقے سے تعلق رکھتے تھے جو ان کا جاں نثار تھا۔ نند لال گویاؔ نے اپنا زیادہ تر تخلیقی کام آنند پور میں قیام کے دوران کیا۔ ان کا کلام سکھ مذہب کے بنیادی عقائد اور ضابطہ حیات کے حوالے سے ایک مذہبی و تاریخی دستاویز ہے۔
سکھوں کے ہاں جو خالصہ کا تصور ہے اس کی تشکیل میں بھی نند لال گویاؔ کا اہم ترین کردار ہے۔ ’’ خالصہ ‘‘ کے خدو خال نند لال گویاؔ کی کتاب ’’ تنخواہ نامہ‘‘ میں بیان کئے گئے ہیں جس کی ایک نظم کا آخری مصرع ’’ راج کرے گا خالصہ‘‘ آج تک سکھوں کا سیاسی نعرہ چلا آرہا ہے۔ نند لال گویاؔ سکھ ازم کے ایک بلند ترین سکالر ، شاعر اور شخصیت ہیں، ان کو دنیا بھر کے سکھ بڑا احترام دیتے ہیں اور ان کے کلام کو عقیدت سے پڑھتے ہیں ۔ گرو گرنتھ اور سکھوں کے دیگر گروئوں کے کلام اور تعلیمات کو سمجھنے کے لئے بھی آغا نند لال گویاؔ کا کلام مشعل راہ کا کام کرتا ہے۔
سکھ سکالر امرونت سنگھ لکھتے ہیں کہ ’’ آغا نند لال گویاؔ گوربانی کو سمجھنے والے اہم ترین آدمی تھے ، ان کا سکھ مت سے محبت کا گہرا رشتہ تھا ، انہوں نے سکھ گروئوں کی تعلیمات کو بہت گہرائی میں جا کر سمجھا ‘‘ 1699ء میں بیساکھی کے اجتماع میں ہی آغا نند لال گویاؔ کو ’’ بھائی ‘‘ کا خطاب دیا گیا جو سکھ مت میں بڑی اہمیت کا حامل ہے۔
اس موقع پر گرو گوبند سنگھ نے اپنے ایک تاریخی حکم کے ذریعے یہ طے کیا کہ گولڈن ٹیمپل ہرمندر صاحب میں صرف سکھوں کی تین شخصیات کا کلام گایا جا سکے گا، یہ تین شخصیات گرو نانک ، بھائی گورداس اور آغا نند لال گویاؔ ہیں ، گرو گوبند سنگھ کے عہد سے آج تک گولڈن ٹیمپل میں صرف انہی تین شخصیات کا کلام گایا جاتا ہے، ان کے علاوہ کسی کا بھی کلام گانے کی اس مقدس مقام پر ممانعت ہے ۔ سکھ تنظیمیں اب ان کے نظر انداز ہونے کا احساس کر رہی ہیں، اس سلسلہ میں ایک ویب سائٹ بھی لانچ کی جا رہی ہے جس میں آغا نند لال کی شخصیت اور فن سے متعلق مضامین شائع کئے جائیں گے، ان کی کتابوں کی فارسی رسم الخط میں اشاعت بھی ممکن بنائی جا رہی ہے اور یہ توقع بھی کی جا رہی ہے کہ 300 سال گزرنے کے بعد آغا نند لال گویاؔ کے کلام کو بہتر انداز میں سمجھا جانا ممکن ہو سکے گا۔
وہ بھی اس لیے کہ ان کے کلام کا محور ان کے پیرو مرشد اور سکھوں کے آخری گرو کی مدح سرائی ہے، روانی، لطافت، الفاظ کی موزونیت اور علمیت کا طنطنہ جو نند لال گویا کے کلام میں ہے وہ کسی بھی ہندو اور سکھ فارسی اور اردو شاعر کے ہاں نہیں اگر ان کے کلام کا بغور جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ ان کے اشعار میں سعدی کی سادگی، حافظ کا بانکپن اور خسرو کی علمیت کا طنطنہ ہے۔‘‘ ارشد ملتانی اپنے مضمون میں رقم طراز ہیں ’’نند لال گویا کے دستیاب کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک صوفی منش انسان تھے انہوں نے تصوف کے مسائل ہی کو جام ومینا کے پیرائے میں بیان کیا ہے کلام میں پختگی اور فارسی انداز سخن کی طرح داری بھی موجود ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ فارسی شاعری کی کلاسیکی روایات سے وہ خوب آگاہ تھے۔،،
’’ گنج نامہ ‘‘ آغا صاحب کی چوتھی کتاب ہے جو سکھوں کی مذہبی تاریخ کے حوالے سے اہم ترین کتاب ہے ، نثر اور شاعری پر مشتمل اس کتاب میں سکھوں کے تمام گروئوں کو ایک خاص سرمستی سے یاد کیا گیا ہے۔ ’’ تنخواہ نامہ ‘‘ آغا نند لال گویاؔ کی پانچویں کتاب ہے جو سکھ مت کے حوالے سے اہم ترین کتاب ہے، پنجابی میں لکھی جانے والی یہ کتاب گرو گوبند سنگھ کے تصور خالصہ کی تشکیل کرتی ہے۔
’’ دستور الانشاء ‘‘ جو نند لال گویاؔ کی چھٹی کتاب ہے اس میں مکتوب نگاری کے اصولوں پر بحث کے ساتھ ساتھ حکمرانوں‘ دوستوں اور رشتہ داروں کو لکھے گئے فارسی خطوط بھی شامل ہیں۔ ’’ مجموعہ انوار ‘‘ کے نام سے آغا نند لال گویاؔ کی دو کتابیں ہیں جن میں سے ایک فارسی جبکہ دوسری پنجابی زبان میں ہے۔ ’’ ریحت نامہ ‘‘ Code of Conduct دسمبر 1695ء میں گرو گوبند اور نند لال گویاؔ کے درمیان ہونے والے ایک تاریخی مکالمہ پر مشتمل ہے۔ ’’ارزل الفاظ ‘‘ آغا نند لال گویاؔ کی دسویں کتاب ہے جس کا بنیادی موضوع خدا کی ثناء ہے۔
آغا نند لال گویاؔ کو رہائش کے لئے یہ جگہ پسند آئی اور انہوں نے یہیں آباد ہونے کا فیصلہ کر لیا،یہاں انہوں نے اپنے لئے زمین کا ایک ٹکڑا خریدا اور اس پر خوبصورت گھر تعمیر کرایا۔ جب آغا نند لال گویاؔ دہلی گیٹ کے اس بیرونی علاقے میں آباد ہوگئے اور ان کی شہر کے لوگوں سے شناسائی بھی ہوگئی تو انہوں نے بہت سے لوگوں کو اس علاقے میں گھر بنانے پر نہ صرف آمادہ کیا بلکہ کچھ لوگوں کو گھر کی تعمیر کے لئے اپنی گرہ سے قرض بھی دیا۔ یوں بہت سے مسلمانوں اور ہندوئوں نے اس علاقے میں گھر بنا کر رہنا شروع کر دیا۔ سہج دھاری سکھوں کی بھی یہاں خاصی آباد تھی ، ایک اندازے کے مطابق آغا پورہ میں قیام پاکستان سے پہلے 120 کے قریب سکھ گھرانے آباد تھے۔
آغا نند لال گویاؔ غزنی سے آتے ہوئے اپنے دو وفادار پٹھان ملازمین کو ساتھ لائے تھے، یہ دونوں انہیں غزنی کی روایت کے مطابق ’’آقا‘‘ کہا کرتے تھے ملتان میں یہ لفظ’’ آغا‘‘ میں تبدیل ہوا سو جب اس علاقے کی آبادی کچھ بڑھ گئی تو لوگوں نے آبادی کی اہم ترین شخصیت ہونے کی وجہ سے اس علاقے کو آغا پورہ کہنا شروع کر دیا، لطف کی بات یہ ہے کہ اس علاقہ کا نام آغا پورہ آغا نند لال گویاؔ کی زندگی میں ہی رائج ہو گیا تھا۔ آغا پورہ سے 1947ء میں ہجرت کرنے والے بہت سے سکھوں اور ہندوئوں کے مکانات تاحال آغا پورہ میں موجود ہیں، ان میں سے کچھ مکانات ہندوستان سے ہجرت کرکے آنے والے مہاجرین کو کلیم کے سلسلہ میں الاٹ ہو چکے ہیں اور بہت سی جائیدادیں ایسی بھی ہیں جو ہندو وقف املاک بورڈ کے زیر انتظام ہیں۔
آغا نند لال گویاؔ نے آغا پورہ میں اپنا جو گھر بنایا تھا ان کا خاندان 1947ء تک اسی گھر میں آباد رہا ، 1652ء میں تعمیر ہونے والا یہ گھر اپنے طور پر ایک تاریخی اہمیت رکھتا ہے۔ آغا پورہ کی جس گلی میں یہ گھر واقع ہے اسے ’’ گلی کپتاناں والی ‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس کا نام بھی آغا نند لال گویاؔ کے خاندان کے افراد سے ہی منسوب ہے کیونکہ اس علاقے سے ابتدائی طور پر نند لال گویاؔ کے پوتے نوویندھ سنگھ برطانوی فوج میں کپتان بنے تھے پھر ان کے بعد اس خاندان کے بہت سے لوگ آرمی میں بھرتی ہوئے، اسی وجہ سے اس گلی کا نام گلی کپتاناں مشہور ہوگیا۔
نند لال گویاؔ خاندان کے وہ فرد جن کا گھرانہ آگے چلا وہ لالہ بھوپت رائے ہیں ، بھوپت رائے کے چار بیٹے تھے جن میں لالہ شام داس ملتان ، لائل پور اور شکر گڑھ میں تحصیلدار رہے، دوسرے بیٹے لالہ بھگوان داس ملتان میں پٹواری تھے، تیسرے کا نام مرلی دھر تھا جبکہ چوتھے کا نام گنگا رام تھا۔لالہ شام داس لاولد فوت ہوئے جب کہ لالہ بھگوان داس کے دو بیٹے واس دیو سنگھ اور اندر جیت سنگھ 1947ء تک آغا پورہ والے گھر میں آباد تھے۔ ہمیں اس مضمون کی تیاری کے سلسلہ میں بہت سی معلومات واس دیو سنگھ کے بیٹے پریت موہن سنگھ نے ہی دی ہیں۔ پریت موہن سنگھ آج کل امریکی ریاست کیلی فورنیا میں اپنے بیٹے شو پریت سنگھ کے ساتھ مقیم ہیں اور اپنی جنم بھومی ملتان کو بڑی شدت سے یاد کرتے ہیں۔
No comments:
Post a Comment